واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت خواجہ یوسف ہمدانی

رحمتہ  اللہ  علیہ

آپ کا نام گرامی یوسف اور کنیت ابویعقوب ہے۔ آپ کی ولادت  سنہ ۴۴۰ ہجری میں ہمدان کے نواحی قصبہ بورنجرد میں ہوئی۔ آپ  حضرت ابو علی فارمدی   رحمتہ  اللہ  علیہ  کے خلیفہ، شریعت و طریقت کے جامع اور تربیت سالکین میں ضرب المثل تھے۔ بڑے بڑے علماء تربیت کے لیے آپ کے پاس حاضر ہوتے تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

آپ اٹھارہ سال کی عمر میں بغداد آئے۔یہاں آپ نے ابو اسحاق شرازی  سے فقہ  کی تعلیم حاصل کیاور اصول فقہ و مذہب میں ماہر ہو گئے۔قاضی ابو الحسنین محمد علی ، عبدالصمد بن علی بن ماموں اورابو جعفر بن احمد بن مسلمہ سے سماع حدیث کیا۔

آپ عالم،عامل،عارف،زاہد،پرہیزگار،عابد،صاحب حال اور صاحب کرامت تھے۔اپنے وقت کے سرکردہ مشائخ میں آپ کا شمار ہو تا تھا۔خراسان میں مریدوں کی تربیت آپ جیسی کسی نے نہ کی۔آپ کی مجلس میں علما،فقہا وصلحاء کا بہت بڑا اجتماع رہتا تھا۔سب لوگ آپ کے ارشاد و کلام سے استفادہ کرتے تھے۔

حضرت خواجہ یوسف ہمدانی   رحمتہ  اللہ  علیہ   کی طرح حضور سیدناغوث الاعظم  رحمتہ  اللہ  علیہ   بھی اٹھارہ سال کی عمر میں حصول علم کے لئے اپنے وطن سےبغداد تشریف لائے تھے۔ جب آپ تحصیل علم سے فارغ ہوچکےتو ایک روز حضرت خواجہ یوسف ہمدانی  رحمتہ  اللہ  علیہ   سے ان کی ملاقات ہوئی جسے حضرت غوث الاعظم نے یوں سپرد قلم فرمایا ہے

بغداد میں ایک شخص ہمدان سے آیاہےجسےلوگ یوسف ہمدانی کہتے تھےاورکہاجاتاتھاکہ وہ قطب ہیں۔ وہ ایک مسافرخانےمیں اترے ۔جب میں نےیہ حال سناتو مسافرخانےگیا مگران کو نہ پایا۔ دریافت کرنے پرمعلوم ہواکہ وہ سرداب میں ہیں۔ پس میں وہاں پہنچاتو مجھے دیکھ کر کھڑےہوگئےاوراپنےپاس بٹھایا۔ میرےتمام حالات مجھ سےذکر کئےاورمیری مشکلات کو حل فرمایا۔ پھرمجھ سے یوں ارشاد ہوئے:اے عبدالقادر! تم لوگوں کو وعظ سنایاکرو۔ میں نے عرض کی آقا میں عجمی ہوں۔ اہل بغداد کی فصاحت و بلاغت کے سامنے میری گفتگوکی کیا حیثیت ہے۔ یہ سن کر آپ نےفرمایااب تم کو فقہ،اصول فقہ،اختلاف مذاہب،نحو،لغت اور تفسیرقرآن یاد ہے۔ تم میں وعظ کہنے کی صلاحیت و قابلیت موجودہے۔ برسرممبر لوگوں کو وعظ سنایاکروکیونکہ میں تم میں ایک جڑ دیکھ رہا ہوں جو عنقریب درخت ہوجائےگا۔

آپ سید الکاملین صاحب کرامت ولی تھے۔ایک دفعہ ایک عورت روتی ہوئی آپ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ فرنگی میرے لڑکےکوپکڑکےلےگئےہیں دعافرمایئےکہ وہ آجائے۔آپ نےفرمایا صبرکرو اور گھر واپس جاکر دیکھو تمھارا لڑکاتوگھرمیں موجودہے۔ وہ عورت جب واپس گھر پہنچی تو دیکھاواقعی اس کالڑکاگھرمیں موجود تھا۔ لڑکے سے حال دریافت کیاتواس نے بتایامیں ابھی قسطنطنیہ میں قیدتھا۔پہرےدار اردگردموجود تھےکہ اچانک ایک نامعلوم شخص آیا اورمجھ کو آنکھ جھپکتے ہی گھر پہنچادیا۔ اس عورت نے آپ کے پاس آکرتمام واقع بیان کیا۔ آپ نے فرمایا تجھے حکم خدا سے تعجب آتاہے۔

ایک دفعہ آپ وعظ فرمارہےتھے وعظ کی تاثیرسےتمام مجمع مسحورتھا۔ دو فقہیہ بھی حاضرین میں موجود تھے۔ وہ یہ منظربرداشت نہ کرسکے اور آپ سے کہنے لگے چپ رہو کہ تم بدعتی ہو۔ آپ نے ارشاد کیاتم خاموش رہو کہ تمہیں موت آنےوالی ہے۔ چنانچہ وہ دونوں اسی وقت اسی جگہ مرگئے۔

آپ نے۱۷رجب۵۳۶ہجری کواس دارفانی کو خداحافظ کہااوربامئین جو کہ ہرات اور بغشورکے درمیان واقع ہے سپرد خاک ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ کے ایک مریدخاص ابن النجار نے آپ کے جسدخاکی کو مرو میں لےجاکر سپردخاک کردیا جہاں آج مزار مقدس موجود ہے۔